جب جنرل افتخار اور چوہدری نثار کو اس بات کا علم ہوا تو ان دونوں نے اپنے دل میں یہ بات بٹھا لی کہ یہ دراصل جنرل علی قلی ہی تھے جنہوں نے جنر جہانگیر کرامت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے جنرل افتخار کی ملازمت میں توسیع نہیں ہونے دی۔ جنرل علی قلی کی تقرری سے جنرل افتخار، چوہدری نثار، اور جنرل پرویز مشرف کو تکلیف ہوئی تھی حالانکہ انہیں میرٹ کی بنیاد پر یہ ترقی دی گئی کیونکہ سینیارٹی لسٹ پر وہ نمبر ون تھے۔
جنرل علی قلی خان کے انٹرویو کے ایک حصے کا خلاصہ:
جب نئے چیف آف جنرل سٹاف کی تقرری کا وقت آیا تو جنرل جہانگیر کرامت نے جنرل علی قلی خان، جنرل خالد نواز، اور جنرل پرویز مشرف میں سے جنرل علی قلی کی پروفیشنل قابلیت اور اہلیت کو سامنے رکھتے ہوئے اُنہیں اِس عہدے کے لئے منتحب کیا۔ علی قلی اپنے
قریبی اور ذاتی دوست جنرل افتخار علی خان (چوہدری نثار علی خان کے بڑے بھائی جو اُس وقت چیف آف جنرل سٹاف تھے اور تین ہفتے
بعدریٹائر ہو رہے تھے) سے ملنے گئے تو وہ اُن کا روکھا سا رویہ دیکھ
کر حیران رہ گئے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اُن کا اتنا قریبی دوست ان کی ترقی پر خوش نہیں ہو گا۔ جنرل افتخار نے انہیں کہا کہ اُنہیں اُن کی تعیناتی کی خبر انہیں مل گئی ہے اب وہ تین ہفتے بعد ہی اس کرسی پر بیٹھ سکیں گے۔ جنرل علی قلی کو یہ سن کر شدید دھچکا لگا۔ جنرل علی قلی کو معاملہ گڑبڑ لگا جب اُنہوں نے کھڑکی سے باہر جنرل پرویز مشرف کو ٹہلتے دیکھا۔ اُن کے کہنے پر جنرل افتخار نے
جنرل پرویز مشرف کو اندر بلا لیا۔ جنرل علی قلی بڑے گرمجوش انداز میں آگے بڑھ کر ملنے لگے تو انہوں نے محسوس کیا کہ جنرل پرویز مشرف کا موڈ ٹھیک نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف یہ توقع کر رہے تھے کہ انہیں چیف آف جنرل سٹاف بنایا جائے گا۔
جب جنرل جہانگیر کرامت کو علم ہوا تو انہوں نے جنرل افتخار کی سرزنش کی کہ جنرل پرویز مشرف (جو اُس وقت کور کمانڈر منگلا تھے) اُن کے کمرے میں کیا کر رہے تھے؟ کچھ دنوں بعد جنرل محمود نے جنرل پرویز مشرف کے اعزاز میں ایک لنچ کا اہتمام کیا جس کا جنرل جہانگیر
کرامت نے سختی سے نوٹس لیا کہ انہوں نے ہائی کمانڈ کے علم میں لائے بغیر یہ لنچ کیوں کیا جو سینئر افسران کے معاملات میں مداخلت کرنا تھا۔
ایک ہفتے بعد جنرل جہانگیر کرامت ایک بریفنگ سے پہلے جنرل علی قلی کے دفتر میں آئے۔ وہ بیٹھے ہی تھے کہ جنرل رانا نسیم نے جو ڈی جی آئی ایس آئی تھے، ایک فائل لا کر جنرل جہانگیر کو دی اور کہا سر فائل کلیئر ہو گئی ہے۔ جنرل علی قلی کو کچھ علم نہیں تھا کہ پیچھے کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ اُنہیں کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ اُس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے جنرل علی قلی کی تقرری کے احکامات روک لئے تھے۔ جب جنرل جہانگیر کرامت تو علم ہوا کہ اُن کے احکامات پر عمل نہیں ہو رہا تو انہوں نے جنرل رانا نسیم کو نواز شریف کے پاس یہ پیغام دیکر بھیجا کہ وہ فوری طور پر اس فائل کو کلیئر کریں۔ ان دنوں نواز شریف کے پاس وزارتِ دفاع کا عہدہ بھی تھا۔
بعد میں بات کچھ یوں کھلی کہ جنرل افتخار اپنی ملازمت کی مدت میں توسیع چاہتے تھے۔ نواز شریف نے یہ کیس جنرل جہانگیر کرامت کو بھیجا تو جنرل جہانگیر کرامت نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ اُن جونیئرز کے ساتھ زیادتی ہو گی جو اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی پروموشن کا انتظار کر رہے ہیں۔ نواز شریف کو بتایا گیا کہ اگر جنرل افتخار کی ملازمت میں توسیع کی گئی تو کم از کم دس سے بارہ سینئر جرنیلوں کو بشمول جنرل علی قلی اور جنرل پرویز مشرف کے بغیر پروموشن لئے گھر جانا پڑے گا۔
No comments:
Post a Comment