راکا پوشی کی چوٹی ہنزہ جانے والوں سیاحوں کو ہمیشہ آگرہ کے تاج محل کی سی سفید اور حسین لگتی ہے۔ اسے بہت سے لوگ "قراقرم کا تاج محل" کہتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک پربتوں کی یہ دیوی جس کی صدیوں پرانی باسی برف میں بہت سی داستانیں دفن ہیں۔ شاہ جہان کے تاج محل سے زیادہ خوبصورت اور پر فسوں ہے۔
، قراقرم کا تاج محل بھی ایسی ہی ایک داستان ہے۔ رشتوں، محبتوں خوابوں اور پہاڑوں کی داستان۔۔۔۔ اس میں ذکر ہے۔۔۔ بہت سے کرداروں۔۔۔ بہت سی محبتوں۔۔۔۔ اور بہت سی وادیوں کا۔ اشوکے دریا کنارے گیت گاتی اداس چڑیا اور سوات کی بارشوں کا۔۔۔ وائٹ پیلس کی سیڑھیوں کے ساتھ نصب پنجرے میں مقید موروں کے اس جوڑے کا ۔۔۔۔جو اک ترک سیاح کی راہ تکتا تھا۔ مارگلہ کی پہاڑیوں پہ اترے بادلوں اور راکا پوشی کے قدموں میں جمتے پگھلتے برفانی نالے کا۔۔۔ یہ ھمالیہ کے عظیم پربتوں اور برف کے سمندروں کی کہانی ہے۔۔۔۔یہ اس کوہ پیما کی کہانی ہے جو دنیا کا سب سے حسین پہاڑ سر کرنے آیا تھا۔۔ یہ اس پری کی کہانی ہے جس نے عشق میں برف کا صحرا پار کیا تھا۔۔۔ اور یہ ان دوستوں کی کہانی ہے جو چوٹیوں سے لوٹ کر نہیں آتے
قراقرم کا تاج محل میرے تحریری سفر کی سب سے یادگار تخلیق ہے۔ اسے میں نے تو مازہومر کے ریسکیو آپریشن سے متاثر ہو کر لکھا تھا۔ میں اپنی اس تحریر کو ان تمام کوہ پیماؤں کے نام کرتی ہوں جو پہاڑوں میں کھو جاتے ہیں۔۔
نمرہ احمد
No comments:
Post a Comment