اس کتاب میں قرآن و سنت اور مستند احادیث مبارکہ کی روشنی اور رہنمائی میں تزکیہ نفس سے خداکی تلاش کوجاتے رستے کی تفصیل سے نشاندہی کی گئی ہے۔ خود سے خدا تک انتہائی آسان اور آج کل کی عام فہم اْردو میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں کہانی، فلسفہ یا اِدھر اْدھر کی مشکل اور سمجھ نہ آنے والی باتوں کی بجائے بغیر وقت ضائع کئے عام انسان کے مسئلے پر بات کی گئی ہے کہ آخر تزکیہ نفس میں کرنے والے کام کیا ہیں اور کیسے انسان اپنی الجھی ہوئی پریشان زندگی کو سلجھا سکتا ہے۔ یہ کتاب آپ پرلکھی گئی ہے۔یہ آپ کو بتائے گی کہ آپ کون ہیں؟ اسے پڑھ لینے کے بعد آپ میں بے پناہ تبدیلی آئے گی۔ آپ کا زاویہ نظربدل جائے گا ، بڑھ جائے گا۔ ذہن و دل میں عظیم انقلاب برپا ہوگا، آپ کوپہلی بارحقیقت میں ایک ایسا زبردست علم حاصل ہوگاجس کی مدد سے آپ خود کو بدل ڈالنے میں اللہ کے فضل سے کامیاب ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ کتاب آپ کو انتہائی تیزی سیمایوسی سے نکال کراللہ سے روشناش کروائے گی۔ ناصر افتخار کی کتاب "خود سے خدا تک" میں پروفیسر احمد رفیق اختر اس طرح دکھائی دیتے ہیں، جیسے بلال الرشید کے کالموں میں۔ پتھر کو پارس چھو لے تو وہ سونا ہو جاتا ہے۔ رہی مٹی تو وہ دائم مٹی ہی رہتی ہے۔ یہ ناصر افتخار کی کتاب سے چند اقتباسات ہیں۔ مفہوم واضح کرنے کے لیے کہیں کہیں ایک آدھ لفظ بدل دیا ہے۔ پڑھتے رہیے اور حیران ہوتے رہئیے کہ اہلِ علم کی صحبت آدمی کو کیا سے کیا کر دیتی ہے۔ "دنیاوی محبت
انسان ساری زندگی ہر طرح سے کوشش کرتاہے۔ ہر طرح کی محبت کو اپنی طرف مائل کرتاہے لیکن ہر محبت کچھ مدت کے بعد اسے پہلے سے بھی زیادہ تنہا اور اداس کرتی چلی جاتی ہے۔ ایک پائیدار محبت کے حصول میں سرگرداں، ہر لحظہ ناکام ہوتا انسان ہر آنے والے دن میں پہلے سے بھی زیادہ پریشان ہوتا چلا جاتاہے۔ انسان خوب جانتا ہے کہ محبت اگر پائیدار ہے تو صرف اللہ سے لیکن چونکہ اللہ سے بھاگنا اس کے نفس کی سرشت ہے، اس لیے یہ اس پائیدار محبت کے حصول سے منہ پھیر کر دوسرے لوگوں سے امید وابستہ کرتا ہے۔ پے درپے ناکامیوں پر غور و فکر کرنے کی بجائے انسان ان ناکامیوں کا، ان غموں کا عادی ہو جاتاہے ہم آج جو بھی ہیں، جس بھی حال میں ہیں، اس کا ذمہ دار اور کوئی نہیں بلکہ صرف اور صرف ہم خود ہیں۔ ہماری زندگی کی کہانی لکھنے والا اور کوئی نہیں۔ اس داستان کے مصنف ہم خود ہیں۔ جو اپنے گناہ، اپنی غلطیاں مان لیتا ہے، اس کا depressionختم ہو جاتا ہے۔ اللہ ریاکاری سے نہیں، اخلاص سے مائل بہ کرم ہوتا ہے۔ ۔ نفس کو علم دینا ہوتاہے کہ اس خزانے کو اللہ کی یاد، اس کی طلب اور محبت واطاعت ِ رسولؐ میں بادشاہ کی طرح لٹا کر، بادشاہوں کے بادشاہ کا گدا بن جائے۔ پھر آواز آئے گی " یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں"( تبصرہ : سحر رشید
No comments:
Post a Comment