بیس رمضان یوم فتح عین جالوت فلسطین ۔
فاتح معرکہ عین جالوت سلطان رکن الدین بیبرس کون تھا۔
انگریز مصنف ہیر لڈیم اسکے زاتی اوصاف کے بارے میں خوب لکھتا ہے۔
وہ ایک عظیم فاتح اور دلیر جنگجو تھا ۔ وہ بھیس بدلنے کا شوقین تھا۔ کئی بار وہ اسٹیج سے غائب اور نظروں سے اوجھل ہو جاتا۔تماشائیوں کو حیران کرنے میں اسے بڑا لطف آتا۔کبھی وہ گداگر کا روپ دھارتا اور کبھی مہمان بن کر دسترخوان پر اکیلا مزے اڑاتا دکھائی دیتا وہ بلا کہ حاضر دماغ تھا ۔۔ مختصر یہ کہ وہ مشرق کا سچا اداکار تھا ۔
طرابلس کا راہب ولیم شاہد ہے کہ سپاہی کی حیثیت سے وہ جولیس سیزر سے کم نہ تھا ۔
وہ منگولوں کے سنہری غول کا تاتاری سپاہی تھا۔ فطری طور پر جنگجو۔ اسکی عسکری صلاحیتیں دشت و صحرا میں پروان چڑھیں۔ اسے دمشق میں تقریباً پانچ سو کے روپے میں فروخت کیا گیا وہ بحری مملوکوں کے جتھوں میں بطور تیر انداز شامل ہوا اور بالآخر انکا سردار بن گیا ۔
وہ اکیلا خاقان اعظم کی یلغار کے سامنے حائل ہوا اور منگولوں کے رخ پھیر دیے اسکے جوابی حملے نے سینٹ لوئس کا دل اور فرانسیسی بہادروں کی کمر توڑ دی تھی ۔ وہ صرف فاتح سلطان ہی نہیں تھا بلکہ امیر المومنین بھی ۔الف لیلہ کا نیک سیرت خلیفہ۔ وہ بڑا موجی بندہ تھا ۔محض خوش طبعی کیلئے شہزادہ کو قلی قلی کو شہزادہ بنادیتا
بیبارس کو روپ بدلنے کا بڑا شوق تھا وہ بھیس بدل کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ حماموں پر دھاوا بولتا اور عورتیں منتخب کرکے غائب ہوجاتا وہ گھوڑے پر سوار ہو کر اکیلا نکل جاتا تو دوسرے دن فلسطین میں نمودار ہوتا اور چوتھے دن صحرائے عرب میں وہ تاتاریوں کی طرح بڑا حوصلہ مند تھا ایک ایک دن میں میلوں کی مسافت طے کرلیتا لوگ سمجھتے کہ وہ نیل پر داد عیش دے رہا ہوگا لیکن وہ حلب کے قلعے کے تہرے دروازوں میں داخل ہوتا تھا ۔
اسکے مشیروں اور وزیروں کو بھی اسکے عزائم کا علم نہ ہوتا ہر شخص کو یہی خیال رہتا ممکن ہے سلطان اسکے قریب بیٹھا اسکی باتیں سن رہا ہو ،جامع مسجد کے قاضی کے دوش بدوش بیٹھا جھوم جھوم کر تلاوت کرنے والا در حقیقت سلطان ہو لوگ اسکے کارنامے سن کر خوش ہوتے لیکن اسکے تقرب سے گھبراتے اسکی آمد سے دلوں پر ہیبت طاری ہوجاتی ۔
وہ جہاں دیدہ اور جہاں گرد سلطان تھا اگر کہا جائے اس زمانے کا سب سے بڑا سیاست دان تھا تو مبالغہ نہ ہوگا لوگ سلطان کی غیر موجودگی سے پریشان ہورہے ہوتے تو وہ اچانک واپس آتا گھوڑے سے اترتا اور سیدھا دیوان وزارت میں گھس جاتا ۔( سلطان صلاح الدین ایوبی مصنف ہیر لڈیم)
یہ داستان مشہور ہے وہ بھیس بدل کر ایشیائے کوچک کے دور افتادہ علاقے میں پہنچ گیا بضاہر یہ واقعہ الف لیلہ کی کہانیوں جیسا لگتا ہے لیکن مورخین نے جس تواتر سے نقل کیا ہے اسکی صحت میں کوئی شبہ نہیں رہتا ۔
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن بیبارس نے ایک تاتاری سپاہی کا بھیس بدلا اور تن تنہا شمال کی طرف غائب ہوگیا کئی دن سفر کرنے کے بعد وہ تاتاریوں کے علاقے میں داخل ہوا اور قریہ قریہ پھر کر وہاں کے حالات کا جائزہ لینے لگا مختلف زبانوں میں مہارت رکھنے کی وجہ سے وہ ہر قسم کے لوگوں میں گھل مل جاتا تھا اسلئے اس پر کسی کو شبہ نہ ہوا ایک دن اسنے تاتاری علاقے کے کسی نانبائی کی دکان پر کھانا کھایا اور ایک برتن میں اپنی شاہی انگھوٹی اتار کر رکھ دی پھر اپنے علاقے میں واپس آگیا اور وہاں سے تاتاری فرمانروا کو خط لکھا ۔۔
میں تمہاری مملکت کے حالات کا معائنہ کرنے کے لیے فلاں فلاں جگہ گیا تھا فلاں شہر میں فلاں نانبائی کی دکان پر انگھوٹی بھول آیا ہوں مہربانی فرما کر وہ انگھوٹی تلاش کرکے مجھے بھیجوادو کیونکہ وہ مجھے بہت پسند ہے ۔
معلوم نہیں اس ستم ضریفی کا ہلاکوخان پر کیا اثر ہوا لیکن قاہرہ کے بازاروں میں لوگ یہ قصہ سن کر قہقہے لگاتے تھے۔
ایک دفہ سلطان عیسائی زائر کا بھیس بدل کر صلیبیوں کے مقبوضہ علاقوں میں داخل ہوا اور کئی ہفتوں تک انکے فوجی استحکامات کا بھرپور جائزہ لینے میں مصروف رہا کہا جاتا ہے کہ وہ تقریباً بیس ایسے قلعوں کو دیکھنے میں کامیاب ہوا جو عیسائیوں کی قوت کا مرکز تھے ایک دن اسنے عجیب ستم ضریفی کی اسنے ایک قاصد کا بھیس بدلا اور ایک ہرن کا شکار لے کر سیدھا انطاکیہ کے حاکم بوہمنڈ کے دربار میں جا داخل ہوا سلطان نے بوہمنڈ کے سامنے ایلچیوں کے انداز میں عرض کیا۔۔۔
عالی جاہ ہمارے آقا ملک الظاہر کو بہت افسوس ہے آپ محصور ہونے کی وجہ سے اپنا شکار کا شوق پورا نہیں کرسکتے انہوں نے یہ تازہ شکار آپکی خدمت میں بطور ہدیہ بھیجھا ہے آپ اسے قبول فرمائیں ہمارے آقا آپکے شکر گزار ہونگے ۔
جب بیبرس قلعہ سے باہر چلاگیا تو کسی نے آکر بوہمنڈ کا بتایا یہ ایلچی خود سلطان تھا یہ سن کر بوہمنڈ پر لرزاں طاری ہوگیا
غرض اسکی بیدار مغزی نے جہاں اسے اپنی عوام کی آنکھوں کا تارا بنایا تھا وہاں دشمنوں کے دل پر ایسی ہیبت طاری کردی تھی کہ وہ اسکا نام سن کر تھراتے تھے.
No comments:
Post a Comment