انسان کی فطرت میں اجتماعیت پنہاں ہے-یہی مطلب ہے حکماء کے اس قول کا کہ انسان مدنی الطبع ہے[1]-یہ الفاظ مشہور مسلم مورخ علامہ عبد الرحمٰن ابن خلدون کی کتاب ’’تاریخ ابن خلدون‘‘ کے ہیں-اس کتاب کے مقدمے میں مزید فرماتے ہیں کہ اجتماع انسانی ضرورت ہے یعنی آدمی کا اپنے ابنائے جنس کے ساتھ مل جل کر رہنا-اسےحکما اپنی اصطلاح میں مدنیت اور ہم عمارتِ انسانی کہتے ہیں-یعنی بقول ابنِ خلدون معاشرتی زندگی کی ابتدا انسان کی زمین پر آمد اور آبادی سے ہوئی-تہذیب، انسان کی مدنی اور اجتماعی زندگی کے لیے ایک فطری چیز ہے-چنانچہ مدنیت انسانی فطرت میں شامل ہے یوں انسانی معاشرے میں تہذیب ایک فطری عمل کے طور پر رونما ہوتی ہے اور جس سے یہ انسانی معاشرے کی اساس ٹھہرتی ہے-انسان اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے دیگر انسانوں کے تعاون کا محتاج ہے جس کیلئے ابنِ آدم معاشرتی زندگی گزارنے پر مجبور ہے- بالفاظ دیگر عقلی و طبعی طورپر انسانی معاشرتی زندگی تہذیب کے ارتقاء میں بطور ایک لازمی جز ٹھہرتی ہے-تہذیب لاطینی زبان کے لفظCivites” “سے ماخذ ہے[2] جس کا مطلب ایک شہر ہے-لفظ تہذیب کا مطالعہ تاریخی پیرائے میں کیا جائے یا لغوی و معنوی نقطہ نظر سے،اس کا تعلق و واسطہ انسانی کی سماجی اور اجتماعی زندگی سے ہے-لغت عربی میں لفظ تہذیب کے لئے عام طور پر مدنیت اور حضارت کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں -تہذیب و ثقافت کی اصطلاحیں علم عمرانیات(معاشرہ شناسی) کے موضوعات میں سے ہیں-ابھی تک ان اصطلاحات کی حتمی بنیادوں پر کوئی ایسی جامع تعریف وضع نہیں کی گئی،جو تہذیب کے تمام عناصر کو بیاں کرنے میں کامل و مکمل ہو-اس کی تکنیکی تعریف کے حتمی بیان میں سکالرز کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے-ذیل میں تہذیب کی مختلف تعریفات بیان کی گئی ہیں-کیمبرج ڈکشنری کے مطابق ترقی یافتہ ادارے رکھنے والے لوگوں کے رہن سہن کے طریقہ حیات کو تہذیب کہتے ہیں:DOWNLOAD
Enable GingerCannot connect to Ginger Check your internet connection
or reload the browserDisable in this text fieldEditEdit in GingerEdit in Ginger
No comments:
Post a Comment