ہماری تاریخ غداریوں اور غداروں کے ابواب سے بھری پڑی ہے۔ پہلے بڑے غدار کے طور پر میرے ذہن میں عباسی خلیفہ مستنصر باللہ کا وہ ” باتدبیر اور معتمد وزیر “ اُبھر رہا ہے جس نے چنگیز خان کے دربارمیں ایک سفارتی وفد اس انتباہی پیغام کےساتھ بھیجا تھا کہ اگر منگول شہنشاہ نے خوارزم کی اسلامی سلطنت پر یلغار کی تو بغداد سلطان خوارزم علاو الدین کا ساتھ پوری قوت سے دےگا۔ مگراس سفارتی وفد میں ایک ایسا شخص بھی شامل تھا جس نے بڑے بڑے بال رکھے ہوئے تھے جو اُس نے منگول دارالحکومت میں پہنچ کر منڈوا لئے۔ سفارتی وفد میں اور کوئی شخص نہیں جانتا تھا کہ اس شخص کی کھوپڑی پر ایک خفیہ پیغام کندہ تھا جس میں منگول خاقان کو یقین دلایاگیا تھا کہ منگولوں اور خوارزمیوں کی جنگ کی صورت میں بغداد مکمل طور پر غیر جانبدار رہے گا۔غداری کی اسی داستان کو نسیم حجازی مرحوم نے اپنے مشہور ناول آخری چٹان کا موضوع بنایا تھا۔عباسیوں سے غیرجانبداری کی یقین دہانی حاصل کرنے کے فوراً بعد چنگیز خان وسطی ایشیا پر ٹوٹ پڑا اور اسلامی تہذیب کے مراکز بلخ بخارا مرو تاشقند اور قوقند نے جو تباہی دیکھی اس کی نظیر نہیں ملتی
چند برس بعد عباسی دربار سے ہی ایک اور بڑی غداری نے جنم لیا۔ آخری عباسی خلیفہ النصر کے وزیراعظم ابن علقمی نے خفیہ طورپر چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان سے یہ سمجھوتہ کیا کہ بغداد کے دروازے تاتاریوں پر کھول دیئے جائینگے جس کے عوض ہلاکو خان مسندِ خلافت ابن علقمی کے سپرد کردےگا۔ ابن علقمی نے جو کہا کر دکھایا لیکن اسکے مقدر میں نہایت عبرتناک انجام لکھاہوا تھا۔ اُسے اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتارتے وقت ہلاکوخان نے کہا۔
No comments:
Post a Comment