بالآخر قسطنطنیہ کی فتح سلطنت عثمانیہ کے ساتویں سلطان کے حصہ میں آئی.
دراصل سرکار دو عالم راسالتمآب ﷺ کی یہ بشارت تھی "
پس تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کر لو گے...پس بہتر امیر اس کا امیر ھو گا...اور بہترین لشکر اس کا لشکر ھو گا۔
یہ فرمان رسالت تھا جس نے ہر دور کے مسلمان فاتحین کو قسطنطنیہ کا پروانہ بناۓ رکھا. لیکن پے درپے کئی حملوں کے باجود اس قدیم شہر کے دروازے کسی مسلمان فاتح کیلئے نہ کھل سکے. حضرت امیر معاویہ خلیفہ بنے تو آپ نے اپنے بیٹے یزید کی سرکردگی میں قسطنطنیہ پر پہلا باقاعدہ حملہ کرنے کیلئے فوج بھیجی حضرت عمر بن عبدالعزیز ہشام بن عبدالملک مہدی عباسی اور ہارون الرشید جیسے پر جلال خلفاء نے بھی اس شہر کو تسخیر کرنے کیلئے زبردست حملے کئے لیکن قسطنطنیہ کسی سے فتح نہ ہو سکا.
قسطنطنیہ ایک ناقابل تسخیر شہر تھا جس کے تین
اطراف میں سمندر اور ایک جانب خشکی تھی شہر کے
گرد چودہ میل کے قطاع دائرے میں ایک مظبوط فصیل تھی جس پر ہر ایک سو ستر فٹ پر ایک مضبوط برج بنا ھوتا تھا فصیل کے اندر ایک اور فصیل تھی اور ان دونوں فیصلوں کے درمیان میں ایک ناقابل عبور خندق تھی جس کی چوڑائی 60 فٹ اور گہرائی 100 فٹ تھی ایک تیسری فصیل نے شہر کی ایک لاکھ کی آبادی کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا اور یوں یہ شہر فتح کرنا تقریبا ناممکن ھو گیا تھا.
قسطنطنیہ عیسائی دنیا کا روحانی مرکز تھا چنانچہ مسلمان فاتحین کے بیسیوں لشکر اس شہر پر یلغار کرنے کیلئے پورے سازوسامان کے ساتھ آتے.....لیکن ہر مرتبہ ناکام لوٹ جاتے.
اور پھر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کا مستحق دولت عثمانیہ کا ساتواں فرمانروا سلطان محمد بن فاتح ٹھہرا...................
No comments:
Post a Comment